کچھ ایسا کھیل کھیلا زندگی نے
کچھ ایسا کھیل کھیلا زندگی نے
ہمیشہ دور سے دیکھا خوشی نے
وہ مردوں کے برابر آ رہی تھی
پھر اس کو آزمایا چھپکلی نے
پلٹ آئے گا پھر صحرا سے مجنوں
اگر رستہ دیا تیری گلی نے
محلہ غیبتیں کرنے لگا ہے
کسی کا ہاتھ کیا پکڑا کسی نے
کہاں وہ آسماں قدموں تلے تھا
کہاں اب لا گرایا نوکری نے
پرانے زخم تازہ ہو رہے ہیں
کئی ٹانکے ادھیڑے ہیں خوشی نے
جسے ہم نے مکین دل بنایا
ہمارا دل دکھایا ہے اسی نے
خدائے عرش نے دیکھا زمیں پر
یہ کیسا ہاتھ مارا ماتمی نے
انا کی دھجیاں اڑنے لگی ہیں
خودی کو چیر ڈالا بے خودی نے
خدا کی قیمتیں لگتی ہیں موسیٰؔ
خدا کو بیچ کھانا ہے سبھی نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.