کچھ ایسے آ رہا ہے حسن یار آہستہ آہستہ
کچھ ایسے آ رہا ہے حسن یار آہستہ آہستہ
ابوالبقاء صبر سہارنپوری
MORE BYابوالبقاء صبر سہارنپوری
کچھ ایسے آ رہا ہے حسن یار آہستہ آہستہ
چمن میں جیسے آتی ہے بہار آہستہ آہستہ
یہ حسرت یہ تمنا ہے کہ اے کاش اس کے قدموں تک
پہنچ جائے مرا مشت غبار آہستہ آہستہ
مرے زخموں سے پھٹتا ہے کلیجہ چارہ سازوں کا
کہ جب روتا ہوں میں سینہ فگار آہستہ آہستہ
منازل عشق کی یوں روز و شب طے کر رہا ہوں میں
کہ جیسے گردش لیل و نہار آہستہ آہستہ
اتر جاتا ہے رفتہ رفتہ سب نشہ جوانی کا
چلا جاتا ہے خود رنج خمار آہستہ آہستہ
ازل سے دوش پر عمر رواں کے ہاتھ ہے میرا
پہنچ جاؤں گا میں زیر مزار آہستہ آہستہ
نحیف و زار ہوں لیکن مجھے جانا ہے اس حد تک
پہنچ جاؤں گا میں بھی سوئے دار آہستہ آہستہ
محبت کا مرض بھی کیا بری شے ہے طبیبوں کو
سناتا ہوں میں اپنا حال زار آہستہ آہستہ
کسی کی نوک مژگاں چبھتی ہے ہر دم رگ جاں میں
چلاتا ہے کوئی خنجر کی دھار آہستہ آہستہ
میں کر دیتا ہوں یا رب سب حوالے تیری رحمت کے
گناہ اپنے جو کرتا ہوں شمار آہستہ آہستہ
انہیں کیا خوف ہے جو ہیں شناور بحر الفت کے
وہ اس دریا سے ہو جاتے ہیں پار آہستہ آہستہ
چلے جب گرتے پڑتے صبرؔ مے خانہ سے ہم پی کر
تو بولی دختر رز ہوشیار آہستہ آہستہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.