کچھ اپنے دور کی بھی کہانی لکھا کرو
کچھ اپنے دور کی بھی کہانی لکھا کرو
پتھر کو موم خون کو پانی لکھا کرو
جدت کی رو میں لوگ کہاں سے کہاں گئے
تم سے بنے تو بات پرانی لکھا کرو
وہ عہد ہے کہ شعلہ فشاں بجلیوں کو بھی
غزلوں میں رنگ و نور کی رانی لکھا کرو
لفظوں کو اپنے اصل معانی سے عار ہے
اب دوستوں کو دشمن جانی لکھا کرو
ہے بے حسوں کی بھیڑ نہ ہوگا کوئی اثر
اخبار میں ہزار گرانی لکھا کرو
لکھنے کے واسطے کوئی عنوان چاہئے
فریاد و آہ و اشک فشانی لکھا کرو
شہرت کے خواستگارو مرا مشورہ ہے یہ
غالبؔ کا اپنے آپ کو ثانی لکھا کرو
دانشؔ زہ نصیب ملے زخم لالہ رنگ
ہر زخم دل کو ان کی نشانی لکھا کرو
- کتاب : Danish Kada (Pg. 63)
- Author : Danish Farahi
- مطبع : Riyaz Ahmed Farahi, Ramleela Maidan, Saraimeer Azamgarh (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.