کچھ بھی کر سکتا نہیں تدبیر سے
کچھ بھی کر سکتا نہیں تدبیر سے
آدمی مجبور ہے تقدیر سے
ٹکڑے کیوں کرتے ہو دل شمشیر سے
توڑو یہ شیشہ نگہ کے تیر سے
جم سکی رنگت نہ بزم غیر میں
اکھڑی اکھڑی آپ کی تقریر سے
عاشقوں پر ظلم کرنے کے سوا
اور کیا آتا ہے چرخ پیر سے
کیوں مرید عشق اے وحشت نہ ہوں
سلسلہ ملتا ہے یہ زنجیر سے
لو تواضع کا کمانوں سے سبق
راہ کرنا دل میں سیکھو تیر سے
قابل تیغ ادا کیا ہم نہیں
کاٹتے ہو کیوں گلا شمشیر سے
یہ تمنا ہے کہ دیکھا ہی کروں
جی بہلتا ہے تری تصویر سے
ہے یہ نقشہ چار دن کے ہجر میں
شکل اب ملتی نہیں تصویر سے
لے کے دل ان کی دلیری دیکھیے
کیسے آ بیٹھے ہیں بے تقصیر سے
وصل کی شب میں بھی الجھن ہی رہی
آپ کی الجھی ہوئی تقدیر سے
ضبط کب تک ایک دن آخر تجھے
کھینچ لیں گے آہ کی تاثیر سے
آج فکر غیر میں جاتا تھا میں
مل گئے وہ خوبیٔ تقدیر سے
آڑ میں ان کی فلک بچ بچ گیا
ورنہ دبتے ہیں جواں کب پیر سے
اعتراضوں پر تلے ہیں کیوں حریف
بزمؔ کیا حاصل ہے اس تقدیر سے
میں تو دل دادہ فصاحت کا ہوں بزمؔ
کیوں نہ ہو الفت کلام میرؔ سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.