کچھ غرض ہم کو نہیں ہے کہ کہاں لے جائے
کچھ غرض ہم کو نہیں ہے کہ کہاں لے جائے
چل دئے بس دل دیوانہ جہاں لے جائے
وہ گلی خلد سے بہتر ہے بس اتنا سن کر
کوئی واقف ہو تو ہم کو بھی وہاں لے جائے
میری آواز ہوئی جاتی ہے اس کی آواز
اب ہے کیا دور کہ اس تک یہ فغاں لے جائے
موج سرکش کو خبردار کیا تھا ہم نے
اس کو جانا تھا جہاں جوئے رواں لے جائے
گل نہیں دیں گے کبھی بلبل محتاج کو زر
خواہ سرمایہ یہ سب باد خزاں لے جائے
عشق میں اس کے بس اک جان ہے باقی یہ بھی
دیکھیے کب غضب ہم وطناں لے جائے
میری باتیں ہی خوش آتی ہیں اسے جیسے کوئی
کر کے آتش نظر انداز دھواں لے جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.