کچھ ہیں منظر حال کے کچھ خواب مستقبل کے ہیں
کچھ ہیں منظر حال کے کچھ خواب مستقبل کے ہیں
یہ تمنا آنکھ کی ہے وہ تقاضے دل کے ہیں
ہم نے یہ نیرنگیاں بھی دہر کی دیکھیں کہ لوگ
دوست ہیں مقتول کے اور ہم نوا قاتل کے ہیں
عمر ساری راہ کے پتھر ہٹاتے کٹ گئی
زخم میرے ہاتھ میں اک سعئ لا حاصل کے ہیں
اک دھنک لہرا رہی ہے آنسوؤں کے درمیاں
میری آنکھوں میں ابھی تک رنگ اس محفل کے ہیں
اس سے آگے کون جائے دشت نامعلوم میں
ہم نہ کہتے تھے کہ سارے ہم سفر منزل کے ہیں
ان کو طوفانوں سے کیا مطلب بھنور سے کیا غرض
دوست جتنے ہیں تماشائی فقط ساحل کے ہیں
تو جسے اپنا سمجھتا ہے وہ مال غیر ہے
تیرے ہاتھوں میں جو سکے ہیں کسی سائل کے ہیں
جانچتی ہے غیر کو ہر لحظہ چشم عیب جو
نقش مجھ میں جتنے ہیں سارے کسی کامل کے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.