کچھ علاج دل بیتاب مری جاں ہو جائے
کچھ علاج دل بیتاب مری جاں ہو جائے
آج اگر وصل کے وعدے پہ ذرا ہاں ہو جائے
ہم نشیں اس کو کہا کرتے ہیں صحبت کا اثر
تیر آئے مرے سینے میں اور ارماں ہو جائے
حق نے وہ مصحف رخسار تجھے بخشا ہے
کہ جسے دیکھ کے کافر بھی مسلماں ہو جائے
طرز نالہ سنے انداز فغاں کو دیکھے
غیر بیٹھے مری صحبت میں تو انساں ہو جائے
حیف اے جذبۂ دل تجھ سے تو یہ بھی نہ ہوا
کہ مری قبر پہ وہ شوخ ستم راں ہو جائے
تیری آنکھیں یہی کرتی ہیں اشارے ظالم
کوئی بیدل کوئی بسمل کوئی بے جاں ہو جائے
آب خنجر ہو ندامت سے پسینہ قاتل
سامنے مجھ سا اگر کوئی گراں جاں ہو جائے
پاؤں پھیلائے اگر وحشت خاطر نے یہی
مجھے ڈر ہے مرا گھر ہی نہ بیاباں ہو جائے
تیرے بسمل کو تمنا ہو اگر جینے کی
جوہر خنجر خونخوار رگ جاں ہو جائے
اک جہاں میں ترا شہرا ہے مسیحائی کا
کچھ ہمارے بھی دل زار کا درماں ہو جائے
تجھ کو اے بخت سیہ اس لئے ہم لائے تھے
کہ تو یاں آ کے بلائے شب ہجراں ہو جائے
کس نے دیکھا ہے قیامت کو ہمارا ان کا
فیصلہ آج ہی ہونا ہے جو کچھ ہاں ہو جائے
آنکھ ساقی کی جو پلٹے تو پلٹ جائے جہاں
گردش ساغر مے گردش دوراں ہو جائے
اپنا معشوق ہے وہ عالم تصویر اے مہرؔ
کہ اسے دیکھے تو بہزادؔ بھی حیراں ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.