کچھ نہ کچھ مجھ کو بھی کر جانے کو جی چاہتا ہے
کچھ نہ کچھ مجھ کو بھی کر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
وہ پریشان ہے سنتا ہوں بہت میرے لئے
آج مجھ کو بھی سنور جانے کو جی چاہتا ہے
تاکہ وہ بھی مرے جذبات سے واقف ہو جائے
اس کی سانسوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
اس کی یادوں کا تسلسل نہیں رکتا اک پل
حسرت و یاس میں بھر جانے کو جی چاہتا ہے
باد صرصر کے تسلط میں رہا ہوں اتنا
اب بہاروں سے بھی ڈر جانے کو جی چاہتا ہے
کیوں تقاضائے کرم اس سے کروں میں آخر
چوٹ کھا کھا کے نکھر جانے کو جی چاہتا ہے
کوئی غم بانٹنے والا بھی یہاں جیسے نہیں
ایسے حالات میں گھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک دو پل کے لئے تیری حسیں پلکوں پر
صورت اشک ٹھہر جانے کو جی چاہتا ہے
مسکرا کر بڑے انداز سے یہ اس نے کہا
اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
لوگ پتھر سے بھی ہوں سخت جہاں اے شادؔ
ایسی بستی سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.