کچھ نہیں آفتاب روزن ہے
ساتھ والا مکان روشن ہے
یہ ستارے چہکتے ہیں کتنے
آسماں کیا کسی کا آنگن ہے
چاندنی ہے سفیر سورج کی
چاند تو ظلمتوں کا مدفن ہے
آگ ہے کوہسار کے نیچے
برف تو پیرہن ہے اچکن ہے
دائمی زندگی کی ہے ضامن
یہ فنا جو بقا کی دشمن ہے
یاد تار نفس پہ چڑیا ہے
وحشتوں کا شمار دھڑکن ہے
بھیگتا ہوں تمہاری یادوں میں
خط تمہارا مجھے تو ساون ہے
دیکھتا ہوں بچھڑنے والوں کو
خواب گویا کہ دور درشن ہے
نخل گل ہو کسی کا مجھ کو کیا
مجھ کو تو خار و خس ہی گلشن ہے
تک رہا ہوں جہاں کو حیرت سے
مجھ میں جاگا یہ کیسا بچپن ہے
آپ مجھ کو ہی ڈھونڈتے ہوں گے
سب سے پتلی مری ہی گردن ہے
ہنس دئے میری بات سن کر وہ
مسکرا کر کہا کہ بچپن ہے
احمدؔ اپنی مثال آپ ہوں میں
ہاں مرا شعر میرا درپن ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.