کچھ نہیں اشک ندامت کے سوا سائل کے پاس
کچھ نہیں اشک ندامت کے سوا سائل کے پاس
شرم آتی ہے مجھے جاتے ہوئے قاتل کے پاس
اے مری ناداریٔ دل یہ بتا دے تو مجھے
نذر کرنے کے لئے لے جاؤں کیا قاتل کے پاس
کر دیا مجبور ایسا شوق نے ارمان نے
وائے ناکامیٔ دل جانا پڑا قاتل کے پاس
تھی ضرورت زخم دل کی ہو گیا حاصل مجھے
اور پھر رکھا ہی کیا ہے ماسوا قاتل کے پاس
اپنے دل کی کیا بتائیں کچھ نہیں ہم کو خبر
ہوش ہی کھو بیٹھے اپنے پہنچ کر منزل کے پاس
امتحان دل سے پہلے بے خودی نے کھو دیا
دور تھا منزل سے یعنی پہنچ کر منزل کے پاس
کاٹ لیں گے خود بخود اپنا گلا ہم شوق میں
کیا غرض ہے ہم کو کیوں جاتے پھریں قاتل کے پاس
راز وحشت پوچھتے ہو کیا ہمارا رازؔ تم
بارہا لوٹ آئے ہیں جا جا کے ہم قاتل کے پاس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.