کچھ نہیں ہے تو یہ اندیشہ یہ ڈر کیسا ہے
کچھ نہیں ہے تو یہ اندیشہ یہ ڈر کیسا ہے
اک اندھیرا سا بہ ہنگام سحر کیسا ہے
کیوں ہر اک راہ میں وحشت سی برستی ہے یہاں
ایک اک موڑ پہ یہ خوف و خطر کیسا ہے
پھر یہ سوچوں میں ہیں مایوسی کی لہریں کیسی
پھر یہ ہر دل میں اداسی کا گزر کیسا ہے
اس سے ہم چھانو کی امید بھلا کیا رکھیں
دھوپ دیتا ہے ہمیشہ یہ شجر کیسا ہے
روشنی ہے نہ ہواؤں کا گزر ہے اس میں
میرے حصے میں جو آیا ہے یہ گھر کیسا ہے
ایک مدت ہوئی آنکھوں سے بہے تھے آنسو
دامن شوق مگر آج بھی تر کیسا ہے
عمر بھر چل کے بھی پائی نہیں منزل ہم نے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ سفر کیسا ہے
ہم نے دیکھے تھے کئی خواب سہانے لیکن
تجربہ اب ہوا خوابوں کا نگر کیسا ہے
کیسے اگ آیا ہے آبادی میں ویرانہ خمارؔ
شہر کے بیچ یہ سنسان کھنڈر کیسا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.