کچھ شفق ڈوبتے سورج کی بچا لی جائے
کچھ شفق ڈوبتے سورج کی بچا لی جائے
رنگ امکاں سے کوئی شکل بنا لی جائے
حرف مہمل سا کوئی ہاتھ پہ اس کے رکھ دو
قحط کیسا ہے کہ ہر سانس سوالی جائے
شہر ملبوس میں کیوں اتنا برہنہ رہیے
کوئی چھت یا کوئی دیوار خیالی جائے
ساتھ ہو لیتا ہے ہر شام وہی سناٹا
گھر کو جانے کی نئی راہ نکالی جائے
پھینک آنکھوں کو کسی جھیل کی گہرائی میں
بت کوئی سوچ کہ آوارہ خیالی جائے
تشنۂ زخم نہ رہنے دے بدن کو احمدؔ
ایسی تلوار سر شہر اچھالی جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.