کچھ تو اس دشت گم آثار کی ویرانی سے
کچھ تو اس دشت گم آثار کی ویرانی سے
کچھ تو مر جائیں گے ہم اپنی پریشانی سے
ایک خیمے کی طنابیں کٹیں وحشت کے سبب
ایک خنجر کی بجھی پیاس خوں افشانی سے
اک فقیر آج بھی گردن کو اٹھاتا ہی نہیں
جھک گئی تھی کسی ہجرت پہ پشیمانی سے
میں کہ بچھڑا تھا کسی شخص سے برسوں پہلے
تب سے سہما ہوں میں قدرت کی نگہبانی سے
اب جو اس شہر میں آئے تو مقدر جانو
ہم میسر کہاں آتے ہیں یوں آسانی سے
ہم حسینی ہیں ہمیں پیاس کی شدت کیسی
سرخ رو آج بھی ویسے ہے لہو پانی سے
آ ہی جائیں گے اداکاری کے کچھ ڈھب آصفؔ
کون بچ سکتا ہے اس عالم انسانی سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.