کچھ یوں میں اپنے آپ سے کٹتا چلا گیا
کچھ یوں میں اپنے آپ سے کٹتا چلا گیا
بس خال و خد سے رہ گئے چہرہ چلا گیا
افسانہ میرے جہد کا اتنا سا تھا کہ میں
اندیشۂ یقین سے لڑتا چلا گیا
آیا نہیں پلٹ کے اجالا کبھی یہاں
حالانکہ گھر سے کب کا اندھیرا چلا گیا
بھنورے نڈر تھے کوہ حقیقت سے جا لڑے
میں سایۂ سراب سے ڈرتا چلا گیا
جس جا کیا ذرا سا کبھی نیت قیام
اس جا کے پیڑ پیڑ کا سایہ چلا گیا
اک لو کا رود خانۂ مضطر سا ہوں مگر
چپ چاپ دشت کرب میں بہتا چلا گیا
یوں مبتلائے خوف تھا مجھ سے عدو مرا
لاشے پہ میرے تیر چلاتا چلا گیا
دنیا الجھ کے رہ گئی حرص و ہوس کے گرد
منصورؔ کیف وجد میں چلتا چلا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.