کرۂ نور کا باشندہ مجھے دیکھتا ہے
کرۂ نور کا باشندہ مجھے دیکھتا ہے
صبح نو روز ہوں جوئندہ مجھے دیکھتا ہے
اس کی دنیا سے کسی طور نہیں بنتی مری
اور وہ ہے کہ نمائندہ مجھے دیکھتا ہے
مجھ کو آہنگ و توازن کے ہنر آتے ہیں
رقص کرتا ہوں تو سازندہ مجھے دیکھتا ہے
میں ہوں تسلیم کے رستے میں بغاوت کا چراغ
ظلم ہر طاق میں تابندہ مجھے دیکھتا ہے
عشق ہوں اور نمو کرتی ہوئی خاک سے ہوں
یعنی ہر شخص ہی آئندہ مجھے دیکھتا ہے
میری تاریخ کا ماخذ مری دانائی ہے
وقت ہر دور میں پایندہ مجھے دیکھتا ہے
میں نے تہذیب کی مٹی میں یقیں بویا تھا
پھول کھلتے ہیں تو کارندہ مجھے دیکھتا ہے
اپنی دانست میں چوما تھا کوئی آب فشار
چشمک نم سے وہ شرمندہ مجھے دیکھتا ہے
کس نے ماحول پہ چھڑکا ہے مرا صبر منیرؔ
مر بھی جاؤں تو جہاں زندہ مجھے دیکھتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.