کوچۂ تمنا سے کار گاہ آذر تک
سنگ سنگ ملتے ہیں وقت کے پیمبر تک
کام کی خرابی سے نام ڈوب جاتے ہیں
گالیوں کی زد میں ہیں قاتلوں کے خنجر تک
انتظار کرتے ہیں لوگ کیوں مسیحا کا
فاصلہ نظر کا ہے زخم دل سے نشتر تک
تشنگی کا روما ہے اب انہیں کے ہونٹوں پر
جو سلگتی راتوں میں پی گئے سمندر تک
جو گھٹائیں بو کر بھی تشنگی اگاتا ہے
اس کی نا مرادی پر ہنس دیا مقدر تک
خود کو مان لو یوسف اس لئے نہیں ہے یہ
آئنے کی سیڑھی سے پہنچئے سکندر تک
ان کے پاؤں کے نیچے ماہ ٹوٹ جاتا ہے
تم کہ آ نہیں سکتے اپنے گھر کے اخترؔ تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.