کوزہ گر کے گھر امیدیں آئی ہیں
کوزہ گر کے گھر امیدیں آئی ہیں
مٹی کے پتلے میں سانسیں آئی ہیں
گھبرا کر بستر سے اٹھ بیٹھا ہوں میں
نیند میں پھر خوابوں کی لاشیں آئی ہیں
کس نے دستک دی ہے میری پلکوں پر
آنکھوں کی دہلیز پہ یادیں آئی ہیں
خواب میں اس کو روتے دیکھ لیا تھا بس
من میں جانے کیا کیا باتیں آئی ہیں
آنکھیں سرخ دکھیں تو میں نے پوچھ لیا
اس کا وہی بہانہ آنکھیں آئی ہیں
اک تکیے پہ میں اور میری تنہائی
ایسی جانے کتنی راتیں آئی ہیں
رشتوں کا آئینہ کب کا ٹوٹ چکا
میتؔ کے حصے کیول کرچیں آئی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.