کیا بناوٹ نے نکالے نئی تلوار کے ہاتھ
کیا بناوٹ نے نکالے نئی تلوار کے ہاتھ
خون برساتے ہیں مہندی بھری سرکار کے ہاتھ
گھونٹتے دم میں کسی طفل طرحدار کے ہاتھ
او مسیحا نہ لگانا دل بیمار کے ہاتھ
موت لکھی تھی مگر ابروئے خم دار کے ہاتھ
میرا پیغام اجل آتا ہے تلوار کے ہاتھ
کبھی ہے تیر کی چٹکی کبھی تلوار کے ہاتھ
نچلے رہتے ہی نہیں شوخ ستم گار کے ہاتھ
تیری بخشش ہے تو کیا گرمیٔ محشر سے خطر
گوشۂ دامن رحمت ہے گنہ گار کے ہاتھ
کھینچتا ہے کوئی دل میں سے تصور تیرا
اٹھتے سینہ سے نہیں کیوں ترے بیمار کے ہاتھ
میں وہ ہوں جنس کہ ہوتا نہیں سودا میرا
بیچئے مفت بھی گر مجھ کو خریدار کے ہاتھ
بیت ابرو پہ نئے تل میں یہ مضموں ہے اور
چڑھ گئے رات کسی شاعر مے خوار کے ہاتھ
کشمکش بعد فنا بھی نہ گئی دنیا کی
ایک کے ہاتھ سے چھوٹے تو پڑے چار کے ہاتھ
بوالہوس چپ ہے جو آنچل کو تمہارے چھو کر
بات کچھ تہ کی پڑی محرم اسرار کے ہاتھ
شانہ کی دست درازی ہے ستم کا باعث
روز کٹ جاتے ہیں ناحق یوں ہیں دو چار کے ہاتھ
نہ بچا سیل فنا سے یہ مکان خاکی
اک زمانہ نے لگائے در و دیوار کے ہاتھ
نہ تو دیں دار سے مطلب ہے نہ کافر سے غرض
کب ہیں پابند یہاں سبحہ و زنار کے ہاتھ
اک زلیخا سے بھلا قیمت یوسف کیا ہو
بھاؤ بڑھتا ہے مگر گرمئ بازار کے ہاتھ
کہہ دیا عاشق ابرو کو مسلماں کس نے
وہ لگانے نہیں دیتے مجھے زنار کے ہاتھ
اب گلے لگتے ہیں بے ساختہ ان کے شعلہؔ
یا لگانے نہیں پاتے تھے کبھی ہار کے ہاتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.