کیا بتاؤں تمہیں کہ کیا ہوں میں
کیا بتاؤں تمہیں کہ کیا ہوں میں
بھر چکے زخم کی دوا ہوں میں
جس کی خواہش ہی گمرہی ٹھہری
خواہشوں کا وہ قافلہ ہوں میں
کیوں مجھے گھیر کر کے بیٹھے ہو
اے غمو آدمی برا ہوں میں
یہ جو بدنام خط ہیں ان کا ہی
لوگ کہتے ہیں حاشیہ ہوں میں
آخری حرف ہوں تبسم کا
اور اشکوں کی ابتدا ہوں میں
یہ مری زندگی بتائے گی
کتنی قسطوں میں کب مرا ہوں میں
آج کی شام گھر نہ لوٹوں گا
صبح اکثر یہ سوچتا ہوں میں
ساری دنیا کو ہے خیال مرا
کس تغافل کا سلسلہ ہوں میں
جس کی خود کی ہی کوئی ٹھور نہیں
ایک ایسا ہی آسرا ہوں میں
وہ جو چیخوں میں ہو گئی تبدیل
گونگی بہری وہی سدا ہوں میں
اس کا لہجہ اکھر رہا ہے کیوں
کیا اسے چاہنے لگا ہوں میں
جب سے اماں نے رخصتی لی ہے
چاند کو پہروں دیکھتا ہوں میں
کیوں ہے اجڑا ہوا مرا ساحلؔ
کس سمندر کی بد دعا ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.