کیا بتلائیں یاد نہیں کب عشق کے ہم بیمار ہوئے
کیا بتلائیں یاد نہیں کب عشق کے ہم بیمار ہوئے
ایسا لگے ہے عرصہ گزرا ہم کو یہ آزار ہوئے
آپ کا شکوہ آپ سے کرنا جوئے شیر کا لانا ہے
آپ کے سامنے بولوں کیسے آپ مری سرکار ہوئے
تیر کی طرح کرنیں برسیں صبح نکلتے سورج کی
لہولہان تھا سارا چہرہ نیند سے جب بیدار ہوئے
عدل کی تو زنجیر ہلانے ہم بھی گئے دروازے تک
ہاتھ مگر زنجیر نہ آئی معتوب دربار ہوئے
جو بھی زخم لیے تھے دل پر ہم نے ان کی چاہت میں
ان سے کہہ دینا وہ سارے زخم گل و گلزار ہوئے
میرؔ کا تو احوال پڑھا ہے کیا نصرتؔ تم بھول گئے
یہ نگری ہے عشق کی نگری کیا کیا سید خوار ہوئے
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 18.12.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.