کیا غم ہے اگر بے سر و سامان بہت ہیں
کیا غم ہے اگر بے سر و سامان بہت ہیں
اس شہر میں کردار کے دھنوان بہت ہیں
چاہو تو تغافل کے نئے تیر چلاؤ
ٹوٹے ہوئے دل میں ابھی ارمان بہت ہیں
دزدیدہ نگاہی یہ حیا بار تبسم
اس بزم میں لٹ جانے کے امکان بہت ہیں
کھو جائیں نہ یہ گوہر نایاب غم عشق
بازار محبت سے یہ انجان بہت ہیں
جو زخم بھی تو نے دئے تازہ ہیں ابھی تک
اے گردش دوراں ترے احسان بہت ہیں
طے کرکے زمانے میں ترقی کے منازل
کیا بات ہے ہم لوگ پریشان بہت ہیں
ہر داغ سیاست کے سفیدی میں چھپائے
یہ راہنما صاحب ایمان بہت ہیں
بے خوف سیاست کے پس پردہ ہیں مجرم
کیا بندشیں قانون کی بے جان بہت ہیں
ہم حوصلہ ساماں ہوئے کیا شدت غم میں
ارباب جہاں دیکھ کے حیران بہت ہیں
اب اسلحہ سازی پہ ہے طاقت کا توازن
یہ فتنہ و شر کے لئے سامان بہت ہیں
برسوں سے طربؔ رشتوں پہ جو برف جمی ہے
اب اس کے پگھل جانے کے امکان بہت ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.