کیا غم کے ساتھ ہم جئیں اور کیا خوشی کے ساتھ
کیا غم کے ساتھ ہم جئیں اور کیا خوشی کے ساتھ
جو دل کو دے سکون گزر ہو اسی کے ساتھ
کاغذ کی ناؤ میری پلٹ کر نہ آ سکی
بچپن میں میرا دل بھی بہا تھا اسی کے ساتھ
آنکھوں کے سوتے خشک ہوئے روشنی گئی
لیکن نظر کا رشتہ وہی ہے نمی کے ساتھ
کیا موت ہی علاج ہے غم سے نجات کا
کیوں زندگی کی بننے لگی خودکشی کے ساتھ
لوگوں کو کیا پڑی ہے جو پوچھیں کسی سے حال
ہر آدمی مگن ہے غم زندگی کے ساتھ
جن کے نصیب میں نہیں دنیا کی راحتیں
دیکھو تو کیسے جیتے ہیں وہ ہر کمی کے ساتھ
مجبوروں بیکسوں کی یہاں فکر ہے کسے
بے موت کتنے مرتے ہیں فاقہ کشی کے ساتھ
فرصت ہے کس کے پاس جو سوچے یہ بیٹھ کر
کس کی بنی کسی سے یا بگڑی کسی کے ساتھ
رشتوں کی بھیڑ میں جو میں ثابت قدم رہی
دل کے تمام جبر سہے خوش دلی کے ساتھ
لائیں کہاں سے ڈھونڈ کے اپنا کہیں جسے
رستے تکے ہیں ہم نے بھی آشفتگی کے ساتھ
شہنازؔ اپنے لہجے میں نرمی خلوص رکھ
کر بات ہر کسی سے بہت عاجزی کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.