کیا غضب تو نے یہ اے ذوق پشیماں کر دیا
کیا غضب تو نے یہ اے ذوق پشیماں کر دیا
میرا آنسو ان کی آنکھوں سے نمایاں کر دیا
تھا مجھے تو خیر پیغام جنوں جوش بہار
گل پہ کیا گزری کہ چاک اس نے گریباں کر دیا
خندۂ گل جلوۂ شبنم فروغ ماہتاب
میں نے جس منظر پہ چاہا ان کو عریاں کر دیا
یہ گل آتش بجاں یہ لالۂ روشن ضمیر
اے نسیم صبح تو نے تو چراغاں کر دیا
بے نیاز موسم گل تھا مرا جوش جنوں
میں نے جس ذرے کو ٹھکرایا گلستاں کر دیا
گر مری جانب نظر اٹھی زہے قسمت مگر
تم نے یہ کیا تیر سا جزو رگ جاں کر دیا
میں کوئی نقش کف پا تھا سر راہ طلب
آنکھ ابھی کھلنے نہ پائی تھی کہ حیراں کر دیا
بالیقیں لخت جگر اپنا تھا فرزند خلیل
سرخ رو دیدۂ تر ہے ہے کہ قرباں کر دیا
سن رہا ہوں غنچے غنچے سے انا الحق کی صدا
کیا مرے دل کو ہم آغوش گلستاں کر دیا
نعرۂ رند خراباتی نہ لبیک حرم
تو نے اٹھ کر بزم کو شہر خموشاں کر دیا
مثل گل میں تو چمن میں مسکرایا بھی نہیں
پھر مجھے کس جرم میں تو نے پریشاں کر دیا
ہاتھ بھی اٹھنے نہ پایا تھا بہ ہنگام جنوں
کہکشاں نے ہنس کے پیش اپنا گریباں کر دیا
شام سرمہ در گلو ہے تو سحر پنبہ بگوش
کس جہاں میں فیضؔ کو تو نے غزل خواں کر دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.