کیا گلشن ہستی پھولے پھلے اک پھول بھی جب شاداب نہیں
کیا گلشن ہستی پھولے پھلے اک پھول بھی جب شاداب نہیں
مرنے کے ہیں ساماں بہتیرے جینے کے مگر اسباب نہیں
مشتاق نظارہ ہو کر بھی گستاخ نہ تھی بے باک نہ تھی
یہ پاس ادب سے اٹھ نہ سکی وہ سمجھے نظر کو تاب نہیں
اللہ رے تشنگیٔ حسرت سب پی گیا میرا خشک گلا
قاتل کو تھا جس پر ناز بہت تلوار میں اب وہ آب نہیں
کیا قہر کی ہے یہ مجبوری قانون بھی بدلے فطرت کے
میں برق ہوں لیکن ساکن ہوں میں دل ہوں مگر بیتاب نہیں
شہہ پا کے نگاہ ساقی کی خود ہاتھ سوئے ساغر لپکا
مے خوار تکلف کیوں برتے میخانے کے یہ آداب نہیں
یہ بات وہی کچھ جانتے ہیں ڈوبے ہیں جو غم کے دریا میں
ساحل پہ جو ہیں وہ کیا جانیں گرداب ہے یا گرداب نہیں
چکر میں نہ پھنس دھوکے میں نہ آ بچنا ہے سلامت نا ممکن
یہ عشق و محبت کا دریا بے پایاں ہے پایاب نہیں
ہر حال میں آنسو موتی ہے تفریق مگر یہ ہوتی ہے
جب تک نہ گرے بے آب نہیں گر جائے تو پھر نایاب نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.