کیا ہمارے اشک کی قیمت نہیں بولی گئی
کیا ہمارے اشک کی قیمت نہیں بولی گئی
کیوں ہمارے گاؤں کی سڑکیں نہیں بدلی گئی
اب جہاں میں کوئی بھی انسان مجھ کو نہ دکھا
یہ کسی کی سوچ ہے ہم سے نہیں سوچی گئی
خاتمہ پوری طرح انسانیت کا کب ہوا
بس ردا لاچار کی اوڑھے ہوئی سوتی گئی
ہے ابھی بھی عشق لیلا اور مجنوں کی طرح
وہ ہمارے نام پہ خود کی بلی چڑھتی گئی
کیا پتہ اس کو مری کیسی ادا محبوب ہو
راہ میں تتلی کئی انداز سے اڑتی گئی
باہمی رنجش تو فرقہ خوب آپس میں لڑے
خون کے میزان میں قومیں مری تولی گئی
جی رہی ہے گر سیاست سر اٹھا کر تو جناب
لاش بھی بہتی ندی میں شان سی تیری گئی
ماں اگر غصہ کرے تو بعد میں روٹھے نہیں
سخت ہے بنیاد پر اتنی نمی رکھی گئی
پھیک دو گھر سے حیا بازار میں بکتے رہو
باپ کو گھر کے کسی کونے میں جاں دے دی گئی
ہم بہت مجبور اپنے آپ میں تب سے ہوئے
جب لکیریں یار کی اغیار سے ملتی گئی
راہ میں کانٹیں بہت تھے پاؤں میرا پھول تھا
دھار سے خوشبو میان راہ میں لڑتی گئی
قتل پہلے بھی بہت آسان تھا اب بھی وہی
صورت قاتل حکومت کی طرح بدلی گئی
صاحب عرفان غالبؔ سے شکایت یہ کریں
کیوں غزل بے نام تیرے نام سے جوڑی گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.