کیا جانے کہاں لے گئی تنہائی ہماری
کیا جانے کہاں لے گئی تنہائی ہماری
مدت ہوئی کچھ بھی نہ خبر آئی ہماری
اس دشت گم آثار میں آنے کے نہیں ہم
ہے اور کہیں بادیہ پیمائی ہماری
اس راہ سے ہم بچ کے نکل آئے وگرنہ
بیٹھی تھی کمیں گاہ میں رسوائی ہماری
رہ رہ کے جو تصویر چمکتی ہے فضا میں
ہم اس کے ہیں شیدائی وہ شیدائی ہماری
دل بیٹھنے لگتا ہے یہی سوچ کے اب بھی
پھر رات طبیعت نہیں گھبرائی ہماری
اب خاک ندامت سے اٹھیں بھی تو کہاں جائیں
ہونی ہی نہیں جب کہیں شنوائی ہماری
اک دل کے تقاضے کی ہی تکمیل ہے ورنہ
کیا عرض ہنر کیا سخن آرائی ہماری
- کتاب : غبار حیرانی (Pg. 128)
- Author : احمد محفوظ
- مطبع : ایم۔آر پبلی کیشنز (2022)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.