کیا خبر تھی یوں مجھے یہ آسماں لکھ جائے گا
کیا خبر تھی یوں مجھے یہ آسماں لکھ جائے گا
وقت کے اوراق پر حرف زیاں لکھ جائے گا
تیرگی کی وسعتیں اپنی جگہ محفوظ ہیں
وہ ستاروں کے سفر کو کہکشاں لکھ جائے گا
کاغذی پھولوں کو لے کر یوں قطاروں میں نہ رکھ
سر پھرا کوئی مورخ گلستاں لکھ جائے گا
سیل غم آئے گا چپکے سے مٹانے کے لئے
ریگ ساحل پر وہ جب نام و نشاں لکھ جائے گا
اپنے اندر کے خلا میں گم ہوا جاتا ہے وہ
اب مکاں کو بھی کسی دن لا مکاں لکھ جائے گا
دور تک بکھری پڑی ہیں ساعتوں کی کرچیاں
اب وہ شاید وقت کو نا مہرباں لکھ جائے گا
کیوں مٹاتی پھر رہی ہے گردش ایام تو
لکھنے والا مجھ کو حرف جاوداں لکھ جائے گا
کہہ رہا ہوں میں بھی اپنی زندگی کے واقعات
لکھتے لکھتے وہ بھی اپنی داستاں لکھ جائے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.