کیا کیا بدل گئے ہیں انداز آدمی کے
کیا کیا بدل گئے ہیں انداز آدمی کے
پیسہ ہی اب خدا ہے پردے میں بندگی کے
آفس میں لیٹ آنا پہچان افسروں کی
اور قصے چھیڑتے ہیں دفتر میں دل لگی کے
رشوت کو حق سمجھ کر بھرتے ہیں جیب اپنی
ہر طرح کر رہے ہیں سامان بہتری کے
ہیں بے ضمیر پھر بھی دعویٰ ہے لیڈری کا
اب ووٹ مانگتے ہیں طالب ہیں ممبری کے
بس نام رہ گیا ہے انصاف اب کہاں ہے
حق اپنا کس سے مانگیں مظلوم اس صدی کے
افسانے نیکیوں کے بے جان ہو رہے ہیں
منصوبے بن رہے ہیں اب چار سو بدی کے
کیا انقلاب آیا بدلی ہوا کچھ ایسی
بیٹے بنے منسٹر عمران مستری کے
واعظ بھی آج کل کے مے خوار ہو گئے ہیں
دیتے ہیں وعظ ہم کو اکثر شراب پی کے
قسمت سے وہ ہمارے حکام بن گئے ہیں
ہوتے تھے روز چرچے جن کی ستم گری کے
بنتی تھی پہلے سبزی گھی کا بگھار دے کر
سبزی سے بن رہے ہیں اب ڈبے روز گھی کے
وہ کون ہے جو بڑھ کر آواز حق اٹھائے
سب سورما بنے ہیں عنوان بزدلی کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.