کیا لوگ تھے جو بزم جہاں سے گزر گئے
کیا لوگ تھے جو بزم جہاں سے گزر گئے
سرمایہ ہائے فکر و نظر چھوڑ کر گئے
مسموم تر فضائے گلستاں نہیں تو پھر
پھولوں کے کیوں بہار میں چہرے اتر گئے
کھائے ہیں وہ فریب مسلسل کہ الاماں
مہر و وفا کے نام سے بھی ہم تو ڈر گئے
کیا کہیے ان کی تیرہ نصیبی کہ دہر میں
جو جیتے جی ہی گردش دوراں سے مر گئے
تھی جن سے زندگی بھی حقیقت میں زندگی
وہ نالہ ہائے نیم شبی و سحر گئے
جذبات عشق و غم کی وہ رعنائیاں نہ پوچھ
جن سے حسین و خوب سے چہرے نکھر گئے
یوں ہیں کتاب زیست کے اوراق منتشر
تسبیح جیسے ٹوٹ کے دانے بکھر گئے
کچھ خاص دور ہوتے ہیں فن کی نمود کے
افسوس وہ مواقع عرض ہنر گئے
جن سے قدیم ربط تھا وہ چند خاص دوست
انعامؔ رنج ہے کہ جہاں سے گزر گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.