کیا لطف زندگی کا اٹھانے لگے ہیں لوگ
کیا لطف زندگی کا اٹھانے لگے ہیں لوگ
دن میں بھی اب چراغ جلانے لگے ہیں لوگ
آئینہ زندگی کو دکھانے لگے ہیں لوگ
میری غزل کو سرقہ بتانے لگے ہیں لوگ
ہر جا پہ ظرف اپنا دکھانے لگے ہیں لوگ
چادر سے اپنی پاؤں بڑھانے لگے ہیں لوگ
تاریخ نو نصاب میں آئی ہے اس طرح
ماضی کے سارے نقش مٹانے لگے ہیں لوگ
دیوانگی کی حد سے بھی آگے نکل گئے
مرحوم کو خطوط لکھانے لگے ہیں لوگ
امن و اماں کی پیدا ہو اس ملک میں فضا
کیوں نفرتوں کے پیڑ اگانے لگے ہیں لوگ
آئی نہ راس جب انہیں شہروں کی زندگی
صحرا کی سمت دیکھیے جانے لگے ہیں لوگ
اشعار میری غزلوں کے چھونے لگے ہیں دل
اپنے دلوں میں مجھ کو بٹھانے لگے ہیں لوگ
یہ بھی تو اے لطیفؔ سیاست کی دین ہے
سر پر گدھوں کے سینگ اگانے لگے ہیں لوگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.