کیا ملا اے زندگی قانون فطرت سے مجھے
کیا ملا اے زندگی قانون فطرت سے مجھے
کچھ ملا حق بھی تو باطل کی وساطت سے مجھے
میرے مالک میں تکبر سے نہیں ہوں سر بلند
سر جھکا اتنا ہوئی نفرت اطاعت سے مجھے
میں وہ عاشق ہوں کہ خود ہی چومتا ہوں اپنے ہاتھ
کب بھلا فرصت ملی اپنی رقابت سے مجھے
میں وہ ٹوٹا آئنہ ہوں آپ اپنے سامنے
جس میں ہول آتا ہے خود اپنی ہی صورت سے مجھے
میں وہ پتھر ہوں کہ جس میں دودھ کی نہریں بھی ہیں
تیشۂ فرہاد مت ٹھکرا حقارت سے مجھے
میں وہ عالم ہوں کہ ہر عالم ہے مجھ میں ہمکنار
تو ذرا پہچان خود اپنی شباہت سے مجھے
خار زار دشت میں ہوں اور تو سرو چمن
تو بھلا کیوں ناپتا ہے اپنے قامت سے مجھے
حیف کس کے آگے لفظوں کے دیئے روشن کیے
کتنی امیدیں ہیں اندھوں کی بصارت سے مجھے
میں کہاں بیٹھوں کہ سائے بھی گریزاں مجھ سے ہیں
اب تو دیواریں بھی تکتی ہیں حقارت سے مجھے
میں گریباں چاک تاریکی میں کب تک منہ چھپاؤں
اب تو شرم آنے لگی اپنی ندامت سے مجھے
آتی ہیں وحشت سرائے دل سے آوازیں عجب
دیکھتے ہیں اب تو ویرانے بھی حیرت سے مجھے
اب اگر کچھ بھی نہیں ہوتا تو شور حشر ہو
کم نہیں ہے اتنا سناٹا قیامت سے مجھے
کون ناصر میرا باقرؔ کس کو میرا انتظار
کوئے گم نامی میں ہوں کیا کام شہرت سے مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.