کیا قہر ہے ظالم شب فرقت نہیں جاتی
کیا قہر ہے ظالم شب فرقت نہیں جاتی
آتی ہے تو آکر یہ قیامت نہیں جاتی
پہلے تو بہاروں میں ہوا کرتا تھا سودا
اب دور خزاں میں بھی یہ وحشت نہیں جاتی
خوبی کبھی جاتی نہیں گلزار وفا کی
پژمردہ بھی ہو پھول تو نکہت نہیں جاتی
کیا جذبۂ دل میں بھی اثر اب نہیں باقی
کیوں آہ سوئے باب اجابت نہیں جاتی
آخر وہی ہوتا ہے جو مرضی ہے خدا کی
رہ جاتی ہے تدبیر مشیت نہیں جاتی
یہ نشہ وہ ہے جس کو اترتے نہیں دیکھا
جب سر میں سما جاتی ہے وحشت نہیں جاتی
رفتار یہی کہتی ہے اب دور زماں کی
راحت چلی جاتی ہے مصیبت نہیں جاتی
خالی نہ رہا حسرت و ارماں سے مرا دل
ارمان نکل جاتے ہیں حسرت نہیں جاتی
عنواں تو بہت فن و ادب کے ہوئے ثاقب
اے بزم سخن تیری ضرورت نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.