کیا سناؤں دل مضطر کا فسانہ تم کو
میں نے چاہا تھا کبھی ایک زمانہ تم کو
یہ جو تم عید پہ بھی آتے نہیں لوٹ کے گھر
کوئی چھٹی کا نہیں ہوتا بہانہ تم کو
بستر مرگ پہ ماں تھی تو نہ تھے سامنے تم
بہت ہی مہنگا پڑا ہے چلے جانا تم کو
گاؤں کے کچے مکانوں میں یہ پکے رشتے
راس آئے گا نہیں شہر کا کھانا تم کو
ہر مہینے یہ نئے نوٹ یہ خط کیا مطلب
نہ مناؤ نہیں آتا ہے منانا تم کو
ایک کمرہ ہے کرائے کا یہ بازاری غذا
شہر میں کیسے ملے شاہی ٹھکانہ تم کو
آخری خط کو پڑھو اس میں ملے گا ماہمؔ
بھول جانے کا اسے کوئی بہانہ تم کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.