کیا تمہیں یاد ہے انسان ہوا کرتے تھے
کیا تمہیں یاد ہے انسان ہوا کرتے تھے
یہ بیاباں کبھی گنجان ہوا کرتے تھے
وقت تھم جاتا تھا دھڑکن کی صدا سنتے ہوئے
جب ترے آنے کے امکان ہوا کرتے تھے
سانس رک جاتی تھی لہجے میں کسک ہوتی تھی
جس سمے کوچ کے اعلان ہوا کرتے تھے
نامہ بر آتا تھا رستے بھی تکے جاتے تھے
کیا جواں وقت تھا رومان ہوا کرتے تھے
جانے والوں کو کبھی لوٹنا ہوتا ہی نہ تھا
ملتوی تب بھی یوں پیمان ہوا کرتے تھے
چشم و ابرو شب مہتاب جمال ساقی
کیا تمنا بھرے عنوان ہوا کرتے تھے
بحر آتش میں رواں شوق کی ناؤ رہتی
عشق دشوار تھا بحران ہوا کرتے تھے
دل جلے کوچۂ جاناں کے فسوں زینوں پر
ابر آتا تھا تو مہمان ہوا کرتے تھے
سنگ سہہ لیتے تھے صحرا میں نکل جاتے تھے
قیس اس وقت کے نادان ہوا کرتے تھے
یہ گماں تھا کہ سوالوں کے جواب آئیں گے
ہم تھے فہام سو ارمان ہوا کرتے تھے
وقت گزرے گا تو حالات سدھر جائیں گے
وقت کے قہر سے انجان ہوا کرتے تھے
ان دنوں چاند پہ اک بڑھیا رہا کرتی تھی
طفل کیا سادہ تھے حیران ہوا کرتے تھے
لوگ جب طیش میں آتے تھے تو چھپ جاتے تھے
کیا عجب تند وہ ہیجان ہوا کرتے تھے
کان سن لیتے تھے جذبوں کی زباں کو اکثر
فاصلے تھے مگر آسان ہوا کرتے تھے
یاد ایام بڑی تلخ زمیں ہے عاصمؔ
اس زمیں میں کبھی دیوان ہوا کرتے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.