کیا زیست آب و رنگ کا دھوکا کہیں جسے
کیا زیست آب و رنگ کا دھوکا کہیں جسے
اہل نگاہ خواب زلیخا کہیں جسے
کم مائیگی جرأت دیدار کی قسم
دیکھا ہے یوں انہیں کہ نہ دیکھا کہیں جسے
اک عمر کے تلاطم جذبات کا نچوڑ
پلکوں پہ ہے وہ بوند کہ دریا کہیں جسے
حسرت بھری نظر نے انہیں دیکھ دیکھ کر
ایسا بنا لیا ہے کہ اپنا کہیں جسے
اک قلب مضطرب کہ لبالب ہے مثل جام
اک چشم بادہ ریز کہ مینا کہیں جسے
آنکھوں پہ کیا ہو اہل بصیرت کو اعتبار
وہ جلوگی ہے آج کہ پردا کہیں جسے
نظارہ ہائے حسن کا حاصل نہ پوچھئے
اک خیرگی متاع تماشا کہیں جسے
کس کی نظر کا فتنہ شورش پسند ہے
یہ محشر حیات کہ دنیا کہیں جسے
بخشی ہے دل کے زخم کو تیرے خیال نے
وہ تازگی کہ جان تمنا کہیں جسے
نالہ یہی ہے جب تو اثر کا سوال کیا
اک ایسی کیفیت ہے کہ نغمہ کہیں جسے
پھیلے تو کائنات ہے سمٹے تو اک نگاہ
یہ ناز حسن ایک کنایہ کہیں جسے
ذرہ بھی ناز کرتا ہے اپنے وجود پر
مٹھی میں ہے وہ چیز کہ صحرا کہیں جسے
با ایں ہمہ نمود شرر زندگی ہے کیا
اک کھیل آب و گل کا تماشا کہیں جسے
اک طفل سادہ دل کے گھروندے کی طرح ہے
صفدرؔ یہ مشت خاک کہ دنیا کہیں جسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.