کیوں کہا تھا وفا شعار مجھے
کیوں کہا تھا وفا شعار مجھے
اب ہے اپنا ہی انتظار مجھے
مل گئے اتنے غم گسار مجھے
ڈس رہی ہے بھری بہار مجھے
ہے خرد سے بھی اپنا یارانہ
ہے جنوں پر بھی اختیار مجھے
بے خودی تو ہی دستگیری کر
زندگی کر رہی ہے خوار مجھے
سارے طوفان ہو چکے پسپا
اب تو دریا سے پار اتار مجھے
میں ہوں عرفان ذات کا شہکار
کیوں کسی پر ہو انحصار مجھے
سربلندی مرے خمیر میں ہے
میں ترا نقش ہوں ابھار مجھے
اپنے بندوں سے جس کو پیار نہیں
ایسی دنیا سے کیوں ہے پیار مجھے
میں جو توبہ کروں گناہوں سے
سب کہیں گے گناہ گار مجھے
بات انوکھی سہی مگر ساحرؔ
درد ہی میں ملا قرار مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.