کیوں خوف سا آتا مجھے دیوار سے در سے
کیوں خوف سا آتا مجھے دیوار سے در سے
وہ ٹوٹا مکاں اچھا تھا اس کانچ کے گھر سے
کچھ لوگ اندھیرے میں چلے جانب منزل
ہم گھر سے نکلتے ہی نہیں دھوپ کے ڈر سے
دیتا ہی نہیں ساتھ بڑے وقت میں کوئی
جھڑ جاتے ہیں پتے بھی خزاں میں تو شجر سے
سچائی کا دعویٰ جو کیا کرتے تھے ہر دم
وہ لوگ بھی خاموش رہے موت کے ڈر سے
افسوس بہت ہے کہ یہ پورا نہیں اترا
امید بہت رکھی تھی دنیا نے بشر سے
خود مٹ کے زمانے کو اجالا ہی دیا ہے
سیکھا ہے سبق ہم نے یہی شمع سحر سے
جس کو نہ کوئی رنج کوئی غم نہ ملا ہو
گزرا ہی نہیں ایسا بشر میری نظر سے
تم وقت پہ پرویزؔ ہر اک جبر کو روکو
پانی نہ نکل جائے کہیں دیکھنا سر سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.