کیوں نہ ہم آج حقیقت ہی بتا دیں اپنی
کیوں نہ ہم آج حقیقت ہی بتا دیں اپنی
جسم اپنا ہی نہ اس جسم میں سانسیں اپنی
سچ تو یہ ہے کہ کبھی خود کو تلاشا ہی نہ تھا
اور آئی بھی نہ تھیں برسوں سے یادیں اپنی
بوجھ اس دل کا کسی روز تو ہلکا ہوگا
کھل کے برسیں گی کسی روز تو آنکھیں اپنی
اب یہ عالم ہے ہم اک دوجے کو سن لیتے ہیں
اور خاموش بھی رکھتے ہیں زبانیں اپنی
جانے کس وقت ہو اندر کے سفر کا آغاز
جانے کب ختم ہوں باہر کی یہ دوڑیں اپنی
مجھ کو پہلے ہی سے عرفان کا ہے نشہ بہت
میرے آگے سے ہٹا لو یہ شرابیں اپنی
اب تو ہر سمت نظر آتا ہے جلوہ اپنا
اب تو جس سمت بھی اٹھتی ہیں نگاہیں اپنی
آئنہ آئنہ ہے آپ کو کیا دیکھے گا
دیکھ سکتی ہیں کہاں خود کو نگاہیں اپنی
روح کی پیاس ہے لفظوں سے کہاں بجھتی ہے
بند کر دو یہ صحیفے یہ کتابیں اپنی
ایک تو ہی تو سمجھ سکتا ہے عاصیؔ ورنہ
کون سمجھے گا ترے شہر میں باتیں اپنی
- کتاب : زندگی کے مارے لوگ (Pg. 109)
- Author : ودیا رتن آسی
- مطبع : چیتن پرکاشن،پنجابی بھون،لدھیانہ (2017)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.