کیوں نہ پھر شہر خموشاں میں صدا دی جائے
کیوں نہ پھر شہر خموشاں میں صدا دی جائے
شمع محفل جو سر شام بجھا دی جائے
جب ملے آنکھ کسی سے تو جلا دی جائے
ہے جو یہ رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے
لخلخوں سے تو کبھی ہوش نہیں آنے کا
ہو سکے تو کسی دامن کی ہوا دی جائے
حیرت چشم گلہ مند تو کچھ کر نہ سکی
جوئے خوں آنکھوں سے پھر کیوں نہ بہا دی جائے
روشنی کے لئے کیوں طور کے محتاج بنیں
داغ دل ہی سے نہ کیوں شمع جلا دی جائے
آئنے گرد کدورت سے جو بد باطن ہوں
کیوں نہ اخلاص کے چھینٹوں سے جلا دی جائے
عقل عیار کا پرہیز مداوا ہے مرض
دل بڑے کام کی شے ہے جو دوا دی جائے
وہ تو کہئے کہ نہیں معرفت عکس جمال
آئنہ چور ہو گر بات بتا دی جائے
طور تک آنے کی زحمت نہ گوارا ہو اگر
اک جھلک پردۂ دل ہی سے دکھا دی جائے
والہانہ نگہ شوق جو اٹھ جائے کبھی
بے گناہی کی خطا پر نہ سزا دی جائے
ہم نے مانا کہ تخاطب میں ہے رسوائی مگر
حرج کیا ہے جو نگاہوں سے صدا دی جائے
ہاں گناہ گار ہوں اعلان حقیقت کر کے
ہے مناسب جو سر دار سزا دی جائے
جیتے جی اس کی گلی سے جو نہ اٹھا نقویؔ
ہے مناسب کہ وہیں قبر بنا دی جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.