کیوں نہ تڑپا دے جہاں کو سوختہ جانوں کی بات
کیوں نہ تڑپا دے جہاں کو سوختہ جانوں کی بات
مضطرب کرتی ہے انسانوں کو انسانوں کی بات
دل شکستہ حوصلے حیراں نگاہ آرزو
زندگی کو راس کب آئی صنم خانوں کی بات
تیرگیٔ گیسوئے ہستی کا عالم کیا کہیں
دل ہی دل میں گھٹ کے رہ جاتی ہے ارمانوں کی بات
عام ہوتا جا رہا ہے قصۂ جام و سبو
کھل رہی ہے اہل دل پر آج پیمانوں کی بات
اب نکھرتے جا رہے ہیں عارض حسن حیات
ہو رہی ہے سرخ رو خوں گشتہ ارمانوں کی بات
تشنگی لو دے رہی ہے آرزوئے زیست کو
ڈھل رہی ہے آگ کے شعلوں میں پیمانوں کی بات
تیرگیٔ دہر میں عیش و طرب کی داستاں
فیضؔ ویرانے میں ہو جیسے گلستانوں کی بات
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.