کیوں کر کہوں آہوں میں مری بے اثری ہے
کیوں کر کہوں آہوں میں مری بے اثری ہے
جب دیکھ رہا ہوں کہ ان آنکھوں میں تری ہے
پیغام بہاراں نہ دو اے اہل گلستاں
دیوانوں کی قسمت ہی میں جب در بدری ہے
وہ اہل خرد ہیں جو بدلتے ہیں بہر گام
اب بھی وہی دیوانے وہی جامہ دری ہے
لازم ہے کہ مغرور نہ ہو عیش بقا پر
اے دوست زمانے میں ہر انساں سقری ہے
اغیار تو واقف ہیں مرے حال سے لیکن
افسوس مرے غم سے انہیں بے خبری ہے
اٹھتے ہی نظر ہوش کی محفل ہوئی برہم
اے دوست قیامت ہے کہ یہ عشوہ گری ہے
میں کیوں رہوں محروم گل داغ جگر سے
جب ان کی جفاؤں کی ہر اک شاخ ہری ہے
خود ہی کبھی نالاں کبھی برہم کبھی بد ظن
یہ مشغلۂ عشق عجب درد سری ہے
دنیا کی بہاروں پہ عبث ناز ہے اے دل
ہر چیز یہاں مثل چراغ سحری ہے
عشرتؔ کرے تاریخ نہ کیوں ناز ہمیں پر
ہم جیسا زمانے میں کہاں کوئی جری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.