لاکھ مجھے دوش پہ سر چاہیئے
سیل بلا کو مرا گھر چاہیئے
زاد سفر سے کہیں کٹتی ہے راہ
دل میں فقط شوق سفر چاہیئے
خیر ہو تابانیٔ خورشید کی
شب کے دلاروں کو سحر چاہیئے
اب یہ طلب ہے کہ ہوس چھوڑیئے
پیڑ نہیں مجھ کو ثمر چاہیئے
مانگتے ہیں وہ بھی زمیں سے مراد
سوئے فلک جن کی نظر چاہیئے
اب انہیں ساحل نہ ڈبو دے جنہیں
پار اترنے کو بھنور چاہیئے
مجھ کو تو ہے خانہ خرابی پسند
آپ کہیں کس لیے گھر چاہیئے
مجھ سا بھی معیار طلب کون ہے
دکھ بھی مجھے کوئی امر چاہیئے
کچھ نہیں آتا تو خوشامد ہی سیکھ
ہاتھ میں کوئی تو ہنر چاہیئے
پوچھ تو لوں راہزن وقت سے
میری کلا یا مرا سر چاہیئے
تیغ کی راشدؔ تھی ضرورت مجھے
میں یہ سمجھتا تھا سپر چاہیئے
- کتاب : Funoon (Monthly) (Pg. 383)
- Author : Ahmad Nadeem Qasmi
- مطبع : 4 Maklood Road, Lahore (Edition Nov. Dec. 1985,Issue No. 23)
- اشاعت : Edition Nov. Dec. 1985,Issue No. 23
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.