لاکھ سمجھایا مگر ضد پہ اڑی ہے اب بھی
لاکھ سمجھایا مگر ضد پہ اڑی ہے اب بھی
کوئی امید میرے پیچھے پڑی ہے اب بھی
شہر تنہائی میں موسم نہیں بدلا کرتے
دن بہت چھوٹا یہاں رات بڑی ہے اب بھی
مان لوں کیسے یہاں دریا نہیں تھا لوگو
دیکھ لو ریت پہ اک کشتی پڑی ہے اب بھی
چھت میں کچھ چھید ہیں یہ راز بتانے کے لئے
دھوپ خاموشی سے کمرے میں کھڑی ہے اب بھی
وقت نے نام و نسب چھین لیا ہے لیکن
غور سے دیکھ مری ناک بڑی ہے اب بھی
آسماں تو نے چھپا رکھا ہے سورج کو کہاں
کیوں کلائی میں تری بند گھڑی ہے اب بھی
منزلیں دیتی ہیں آواز کہ جلدی آؤ
پیڑ کہتے ہیں رکو دھوپ کڑی ہے اب بھی
- کتاب : Muhaz Par mein (Poetry) (Pg. 31)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.