لاکھوں حسیں ملے ہیں طرحدار کی طرح
لاکھوں حسیں ملے ہیں طرحدار کی طرح
لیکن ملا نہ کوئی مرے یار کی طرح
قاتل ہے کون ابروئے خم دار کی طرح
چبھنے میں تیر کاٹ میں تلوار کی طرح
ہے دائرہ حیات کا زنجیر کی مثال
گردش میں لوگ رہتے ہیں پرکار کی طرح
منزل کی سمت کیوں نہ اٹھے شوق کا قدم
ہم راہ دل ہے قافلہ سالار کی طرح
مجموعۂ تضاد ہوئی ان کی گفتگو
اقرار بھی وہ کرتے ہیں انکار کی طرح
ہم وحشیوں کا حال جو وہ دیکھنے چلے
صحرا بھی ہو گیا ہے چمن زار کی طرح
دشت جنوں میں آبلہ پا کو سکوں کہاں
فرش زمیں ہے بستر سوفار کی طرح
وعدہ جو کر رہے ہیں تو پورا بھی کیجئے
دھوکا نہ دیجئے مجھے ہر بار کی طرح
وہ پیکر جمال سراپا نظارہ تھا
اپنی خودی حجاب تھی دیوار کی طرح
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.