لب ساحل سمندر کی فراوانی سے مر جاؤں
لب ساحل سمندر کی فراوانی سے مر جاؤں
مجھے وہ پیاس ہے شاید کہ میں پانی سے مر جاؤں
تم اس کو دیکھ کر چھو کر بھی زندہ لوٹ آئے ہو
میں اس کو خواب میں دیکھوں تو حیرانی سے مر جاؤں
میں اتنا سخت جاں ہوں دم بڑی مشکل سے نکلے گا
ذرا تکلیف بڑھ جائے تو آسانی سے مر جاؤں
غنیمت ہے پرندے میری تنہائی سمجھتے ہیں
اگر یہ بھی نہ ہوں تو گھر کے ویرانے سے مر جاؤں
نظر انداز کر مجھ کو ذرا سا کھل کے جینے دے
کہیں ایسا نہ ہو تیری نگہبانی سے مر جاؤں
بہت سے شعر مجھ سے خون تھکواتے ہیں آمد پر
بہت ممکن ہے میں ایک دن غزل خوانی سے مر جاؤں
تری نظروں سے گر کر آج بھی زندہ ہوں میں کیا خوب
تقاضا ہے یہ غیرت کا پشیمانی سے مر جاؤں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.