لب کشائی کی جسارت بھی نہیں کر سکتے
لب کشائی کی جسارت بھی نہیں کر سکتے
ہم بزرگوں کی شکایت بھی نہیں کر سکتے
قافلہ درد کا ٹھہرا ہے جہاں پر آ کر
ہم وہاں ترک مسافت بھی نہیں کر سکتے
ان کو سونپا ہے مرا کار تحفظ تم نے
جو خود اپنی ہی حفاظت بھی نہیں کر سکتے
بندشیں اپنا مقدر ہیں یہاں پر ہم لوگ
اپنی مرضی سے عبادت بھی نہیں کر سکتے
جو محافظ ہیں وہی لوٹ رہے ہیں ہم کو
ہم تو لٹنے کی شکایت بھی نہیں کر سکتے
روک لیتی ہے قدم بڑھ کے وطن کی خوشبو
ہم تو اب ترک سکونت بھی نہیں کر سکتے
- کتاب : سائبان غزل (Pg. 86)
- Author : راہی حمیدی
- مطبع : انجمن درس ادب،چاندپور (2011)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.