لب نہ اپنے کبھی آلودۂ فریاد رہے
لب نہ اپنے کبھی آلودۂ فریاد رہے
ہم ہجوم غم و آلام میں بھی شاد رہے
کار تعمیر نشیمن نہ رکے جرأت شوق
باغباں لاکھ تکے گھات میں صیاد رہے
زلف ہستی کو بہر رنگ سنوارا ہم نے
یہ الگ بات کہ ہم خستہ و برباد رہے
دل کو تڑپاتی ہے بیتے ہوئے لمحات کی یاد
کاش ایسا ہو کے اب کچھ نہ مجھے یاد رہے
وسعتوں میں تری بھولا ہوں میں تنہائی کو
دشت وحشت مرے دنیا تری آباد رہے
کس قدر خون ہوا نذر بہار گلشن
ہم صفیرو یہ چمن کاش اب آباد رہے
رنج و غم کی نہ کڑی دھوپ کبھی ان پہ پڑی
چھاؤں میں جو تری زلفوں کی رہے شاد رہے
اپنے اس فدوی گلشن کو بھی جب آئے بہار
یاد کر لینا چمن والو اگر یاد رہے
سب حوادث رہ منزل کے گزر لیں مجھ پر
کارواں کے لئے باقی نہ کچھ افتاد رہے
قصۂ درد میں کس دل سے سناؤں قاصدؔ
سن کے احوال مرا کیوں کوئی ناشاد رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.