لبوں پر ان کے حیات آفریں ہنسی نہ رہی
لبوں پر ان کے حیات آفریں ہنسی نہ رہی
گلوں میں روح ستاروں میں روشنی نہ رہی
خدا شناسوں کی پہچان ہی کوئی نہ رہی
کہ سرکشی بھی بہ انداز سرکشی نہ رہی
فسانہ گردش دوراں کا نظم کر لیتے
مگر نگاہ میں ان کی وہ برہمی نہ رہی
وقار ذوق تجسس پہ حرف آئے گا
اگر شریک سفر اپنے گمرہی نہ رہی
ہے اپنا سوز تبسم شریک ساز چمن
اسیر گریۂ شبنم کوئی کلی نہ رہی
رہے نگاہ میں آداب لغزش الفت
خودی سے دب کے کبھی اپنی بے خودی نہ رہی
ملا تھا موقع تکمیل داستان حیات
جبین گل پہ شکن اور کھیلتی نہ رہی
شب فراق کچھ ایسے بھی حادثے گزرے
چراغ جلتے رہے اور روشنی نہ رہی
بنائے ہم نے شفاؔ دوستی کے وہ سانچے
کہ دشمنوں کو تمنائے دشمنی نہ رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.