لڑائی ہو تو کاغذ کی سپر سے کچھ نہیں ہوتا
لڑائی ہو تو کاغذ کی سپر سے کچھ نہیں ہوتا
تمہاری یا کسی کی چشم تر سے کچھ نہیں ہوتا
رگوں میں ہے اندھیرا تو یہ روز و شب ہی کافی ہیں
حدیث خیر سے یا حرف شر سے کچھ نہیں ہوتا
کوئی ساعت مقرر ہے کہیں اک مستجابی کی
کف افسوس سے دست ہنر سے کچھ نہیں ہوتا
انہیں ان کے حواری ہم سخن بدنام کرتے ہیں
تری افواہ سے میری خبر سے کچھ نہیں ہوتا
کڑے دن کٹتے کٹتے بھی سروں کی فصل کٹتی ہے
کہ دشت کربلا میں ایک سر سے کچھ نہیں ہوتا
مکان اپنے مکینوں سے حسیں اور خوب صورت ہیں
فقط آرائش دیوار و در سے کچھ نہیں ہوتا
جنوں کو چاہئے اک تیشۂ اعمال کا موسم
یہاں الفاظ کے زیر و زبر سے کچھ نہیں ہوتا
بہت بڑھ جاتی ہے سنجیدگی جب دونوں جانب تو
سوا افسوس کے حاصل سفر سے کچھ نہیں ہوتا
کفیلؔ اک سائباں سر پر رہے ماں کی دعاؤں کا
مرا نقصاں کسی حاسد نظر سے کچھ نہیں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.