لدی ہے پھولوں سے پھر بھی اداس لگتی ہے
لدی ہے پھولوں سے پھر بھی اداس لگتی ہے
یہ شاخ مجھ کو مری غم شناس لگتی ہے
کسی کتاب کے اندر دبی ہوئی تتلی
اسی کتاب کا اک اقتباس لگتی ہے
وہ موت ہی ہے جو دیتی ہے سو طرح کے لباس
یہ زندگی ہے کہ جو بے لباس لگتی ہے
تھی قہقہوں کی تمنا تو آ گئے آنسو
خوشی کی آرزو غم کی اساس لگتی ہے
اٹھا کے دیکھ سرابوں کے آئنہ کو ذرا
ندی کے پاس بھلا کس کو پیاس لگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.